آسیہ مسیح کی رہائی کے فیصلے کی حقیقت؟

آسیہ مسیح کی رہائی کے فیصلے  کی حقیقت؟ 

اس فیصلہ میں بہت سی باتیں ایسی ہیں جن سے نہ چاہتے ہوے بھی کورٹ کی بد نیتی ظاہر ہوتی ہے..... چند اہم درجذیل ہیں:

1: پیرا نمبر 31 میں شہادت ڈسکس کرنے سے قبل آگے پیچھے کے سوالات تو لکھ لیے لیکن سب سے اہم سوال یعنی ”توہین رسالت ہوئی یا نہیں“ گول کر لیا گیا۔۔۔۔۔تا کہ اس پر موجود تاقابل تردید شہادت ڈسکس ہی نہ کرنی پڑے۔ کیا یہ بد دیانتی نہیں...!!؟

2: پیرا نمبر انیس میں دو گواہان یاسمین بی بی اور مختار احمد کا ذکر ہے۔۔ انگش میں لکھا ہے: 
“yasmin bibi and mukhtar ahmad were given up”
جبکہ اسی کا اردو ترجمہ لکھا ہے:

”استغاثہ کے گوہان یاسمین بی بی اور مختار احمد "منحرف" ہو گئے“

چونکہ نناوے فیصد عوام نے اردو فیصلہ پڑھنا تھا۔۔۔اور وٹس ایپ پر پھیلایا بھی اردو فیصلہ ہی گیا۔۔۔۔ اسی لیے اس میں given up کا مطلب ”منحرف“ لکھ دیا۔ جس سے پڑھنے والے کو گمراہ کرنا انتہائی آسان ہو گیا۔

ایسا نہیں کہ ترجمہ کرنے والے کو given up کا مطلب نہیں آتا تھا۔۔۔ بلکہ اسی فیصلہ میں آگے انہی گواہان کے لیے ”متروک“ لفظ استعمال کیا گیا ہے۔

3: پیرا 40 انگلش میں سب انسپیکٹر کا بیان لکھتے ہیں کہ ملزمہ کو گرفتاری کے بعد مجسٹريٹ کے سامنے پیش کیا گیا۔۔۔۔۔ جبکہ اردو میں لکھتے ہیں ملزمہ کو مجسٹريٹ کی موجودگی میں گرفتار کیا۔

4: پیرا نمبر 30 میں لکھتے ہیں کہ گواہان نے اپنے ابتدائی بیانات (161 ض ف)سے deviate کیا۔ اس کی مثال میں اکثر وہ باتیں لکھی ہیں جو ابتدائی بیان میں تو نہ تھیں لیکن جرح (cross examination) میں کہی گئیں۔

میں حیران ہوں کہ یہ بات کرتے ہوے اتنی بڑی غلطی(چول) کیسے کی گئی۔۔۔۔؟!!!

جس وکیل نے کچہری میں چار دن لگائے ہوں وہ جانتا ہے کہ deviation یا improvement وہ کہلاتی ہے جو ابتدائی بیان میں تو نہ ہو لیکن (examination in chief) میں آ جائے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نہ کہ (cross examination) میں۔

کروس اگزامینیشن میں تو ہمیشہ وہ جوابات ہوتے ہیں جو ڈیفینس وکیل کے سوال سے مطابقت رکھتے ہیں۔ ان میں تقریبا ہر قسم کا سوال اور جواب آ سکتا ہے۔

5: قانون کے مطابق جرم ثابت کرنا پراسیکیوشن کا کام ہے۔لیکن اگر ملزم کچھ پلی لیتا ہے تو اسے ثابت کرنا مکمل طور پر ملزم پر ہے۔
ملزمہ کے مطابق اس الزام لگانے کی وجہ(motive) پانی پلانے پر ہونے والے جھگڑے کو قرار دیا گیا۔ پہلی بات یہ کہ پریکٹسنگ وکلاء سمجھ سکتے ہیں کہ اگر یہ ثابت بھی ہو جاتا تو بھی یہ کتنا کمزور اور مضحکہ خیز defence تھا۔۔۔۔۔۔ لیکن یہ ثابت کرنے کے لیے ملزمہ نے حلف لینے سے سے بھی انکار کیا اور کوئی دوسرا گواہ بھی پیش نہ کیا۔

جبکہ کورٹ نے زبردستی دو ایسے گواہان کے بیانات پر اسے پورے واقعے کو جھگڑا قرار دے دیا جو دونوں واقعے کے عینی شاہد نہ تھے۔۔۔!!!!! اور ان کے بھی پورے بیان لکھنے کی زحمت نہ کی۔۔۔۔۔۔!!!

6: جرگہ ہوا یا نہیں اس پر دس صفحات لکھ دیے۔۔۔خاتون کا اپنے دفاع میں دیا گیا بیان غیر ضروری طور پر تین مرتبہ لکھ دیا۔۔۔لیکن خاتون کا ہی یہ بیان ”کہ اس نے جرگہ کے سامنے اَنڈر پریشر کنفیشن کی“ نہیں لکھا۔۔۔کیوں؟

(ایک ایسا خاندان جو دہائیوں سے مسلمانوں کے ساتھ رہتا رہا۔۔۔۔۔صرف پانی کے جھگڑے پر توہین رسالت کا ملزم ٹھرے اور پورے گاوں سے ایک بھی گواہ اپنے حق میں نہ پائےــ!!!؟)

ــــــــــــــــــــ
ــــــــــــــــــــ

اس کے علاوہ بہت سی باتیں ہیں لیکن تحریر کو مختصر رکھنے کے لیے آخری اور اہم پوائنٹ:

کسی بھی کریمینل کیس میں ملزم کے بری ہونے کے کےلیے ”میٹیریل کنٹراڈکشنز“ کا ہونا انتہائی ضروری ہے۔ اس کی اہمیت کا اندازہ اس سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ ججز نے بھی ”میٹیریل کنٹراڈکشن“ کا لفظ بار بار استعمال کیا ہے۔

لیکن جو بات انتہائی اہم ہے وہ اس لفظ کا ”قانونی“ مفہوم ہے۔۔۔۔۔ قانون کے مطابق ”میٹیریل کنٹراڈکشن“ وہ ہے جو براہ راست ملزم پر لگائے گئے الزام\جرم(offence) سے متعلقہ ہو۔۔۔۔۔نا کہ اس جرم کے بعد کے حالات و واقعات میں پائی جانے والے تضادات....!!

اس میں سب سے اہم عینی شاہدین کی اس جرم کے سرزد ہونے کے بارے گواہی ہوتی ہے۔ جس پر فیصلہ خاموش ہے۔

چونکہ ججز کے اٹھائے گئے سوالات میں سب سے اہم سوال ”توہین رسالت ہوئی یا نہیں؟“ رکھا ہی نہیں گیا۔ لہذا تمام فیصلہ جرم ہونے کے بعد کے حالات و واقعات کے گرد گھومتا ہے۔۔۔۔۔!! اور انہیں کو غلط ثابت کرتے ہوے توہین رسالت کو بھی رد کر دیا گیا۔

Post a Comment

0 Comments

New Zealand recovery visa